بگویہ فیملی

بگوی خاندان جیسا کہ مذکور ہواکہ قدیم بھیرہ جغرافیائی اعتبارسے اس طرح واقع ہوا تھا کہ وہاں امن اور تحف میسر تھا جس کے باعث جب زراعت ، تجارت اور فرصت بہتر ہوئی تو اہل ثروت نے علمی ، مذہبی اور رفاہی ادارے قائم کر دیئے۔جب علم و فضل کا چر چا ہوا ،کاروبار اور روپے کی فراوانی ہوئی تو علم اور ہنر کے طالب پنجاب اور نزدیکی علاقوں سے کشاں کشاں کھنچےچلے آنے لگے۔اس موافق ماحول میں کتاب اور علم کا چرچا ہوا جس کی تناظر میں مختلف علمی خاندان معرض وجود میں آئے۔ ان خاندانوں میں اصحاب علم و دانش بھی تھے اورارباب ہنر اور اقتدار بھی، ان کے تعلیمی حلقے اور درس قائم ہوئے۔ بعض اہل علم نے وقت کی ضرورت کے مطابق اپنے ہاتھوں سے قلمی کتابیں تحریر کیں۔ ان میں ایک مفتی خاندان اور ایک قاضی خاندان کا مختصر ذکر ملتا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے علمی اورمذہبی خانوادوں کے بارے میں تاریخ خاموش ہے کیونکہ ان کے آثار باقی رہے اور ان کے اخلاف نے اپنے بزرگوں کی خدمات کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔

            بھیرہ کی تاریخ میں قیام پاکستان سے پہلے شہر میں متعدد ہندو خاندان آباد تھے جو تجارت، کاروبار،سیاست اور تعلیم میں ممتاز تھے۔بعض مہاجرت کے بعد دہلی کے بھیرہ بھون میں آباد ہوئے۔ زیادہ پڑھے لکھنے بعد میں امریکہ یورپ میں جا بسے ۔ پاکستان بننے کےبعد مسلمان کے علمی و مذہبی اور تجارتی و کاروباری خاندان تحصیل علم اور بہتر روزگار کی تلاش میں بھیرہ سے نقل مکانی کر کے دوسرے شہروں میں جا بسے جہاں انہوں نے ملک کی خدمات سر انجام دیں۔  

         بگوی خاندان کاتعلق بنیادی طور پر ضلع جہلم سے ہے وہ اس طرح کہ آبائی علاقہ" بگہ شریف"دریائے جہلم کے پر لی طرف شمالی کنارے پر گاؤں ہے جب کہ اس کی جنوبی جانب بھیرہ شہر اور مشرقی طرف پرانا بھیرہ واقع ہے۔ سردیوں کے دنوں میں دونوں علاقوں کے مابین دریا کے راستے خشک دریا کو عبور کر کے فاصلے طے ہوتے ہیں۔

                       
نقشہ دریائے جہلم
خاندان کے جد اعلیٰ 18   صدی کے وسط میں "بگہ شریف" میں وارد ہوئے جہاں انہوں نے تعلیم و تربیت اور عام لوگوں کی فلاح اور اصلاح کا کام شروع کیا۔ 19 صدی کے آغاز میں جب سکھ دور کی خانہ جنگی تھی، عام طور پر مساجد ویران اور مدارس عربیہ بر باد ہو چکے تھے،ہر طرف سکھا شاہی کی لاقانونیت اور خانہ جنگی کا دور دورہ تھا۔مسلمانوں کی دین کے ساتھ رغبت کم ہو گئی تھی۔اس جہالت اور بے علمی کے ساتھ، اورہندو تہذیب کے اثرات کے باعث مسلمانوں میں ہر قسم کی بدعات عام ہو چکی تھی۔ لوگوں میں قرآن و سنت کے ساتھ وابستگی کم ہو گئی تھی۔ پورے پنجاب میں قرآن سنت کی تعلیم کے علاوہ عمومی طور پر اور علوم دینیہ کی تحصیل کی طرف توجہ کم ہو گئی تھی۔ ان حالات میں خاندان کے جد ا علیٰ مولانا حافظ نور حیات بگوی ؒ نے اپنے دو نو عمر بیٹوں کو دہلی روانہ کیا جہاں بر صغیر کے مشہور عالم اور مجدد شاہ ولی اللہ دہلوی  ؒ کا مدرسہ رحیمیہ آباد تھا۔دو نوں بھائی مولانا غلام محی الدین بگویؒ اور مولانا احمد الدین بگوی ؒ نے وہاں داخلہ لیا۔ وہ دہلی میں کئی سال مقیم رہے، انہوں نے قرآن  و حدیث کی تعلیم حاصل کی اور قریباً 15 سالوں کے بعد واپس لوٹے۔ پہلے دونوں بھائی لاہور پہنچے جہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مسلمان اور عالم وزیر فقیر عزیز الدین نےان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور لاہور کی اہم مساجد میں درس و تدریس، وعظ اور تبلیغ کےفریضے پر آمادہ کیا۔

           کئی سالوں کی خدمت کے بعد بوجہ علالت مولانا غلام محی الدین بگویؒ لاہور سے"بگہ شریف" واپس لوٹے جہاں انہوں نے آبائی سلسلہ درس وتدریس کو جاری رکھا۔        

      ۱۸۴۹ع میں انگریز نے لاہور سمیت پورے پنجاب پر قبضہ کر لیا ۔ لاہور پر قبضے کے لئے سکھوں اور انگریزوں میں جنگیں ہوئیں جس کے نتیجے میں سکھوں اور انگریز دونوں نے بادشاہی مسجد کو بارود خانہ، جنگی گھوڑے ، گدھے باندھنے کے لئے استعمال کیا۔ اس لحاظ سے یہ ان کی ایک چھاؤنی تھی۔مسجد میں اذان،نماز پنجگانہ یا جمعہ کی اجازت نہ تھی ۔ انجمن اسلامیہ پنجاب لاہور مسلمانوں کی ایک قدیم تنظیم تھی جس میں شہر کے نمایاں مسلمان شامل تھے ۔انگریزی قبضے کے بعد مسلمانوں نے مسجدکی بحالی کے لئے درخواست دی جسے انگریز سر کار" بڑی مہربانی" نے منظور کر لیا ۔

           انجمن اسلامیہ پنجابکے فیصلے کے مطابق مولانا احمد الدین بگوی بادشاہی مسجد لاہور کے پہلے خطیب اورا مام مقرر ہوئے۔
عالمگیری بادشاہی مسجد لاہور
۱۸۶۰ع کے لگ بھگ مولانا احمد الدین بگوی ؒ بھیرہ تشریف لائے جنہیں محلہ شیخانوالہ کے ایک دین دار رئیس شیخ غلام حسن صاحب نے باصرار دعوت دی تھی ۔ مولانا نے شہر کی قدیم اور تاریخی مسجد شیخانوالہ میں درس و تدریس کا کام شروع کیا ۔ بھیرہ کے قیام کے دوران مولانا احمد الدین ؒ بگوی نے شیر شاہ سوری مسجد کے کھنڈرات دیکھے تو انہوں نے تباہ وبر باد خانہ خدا کو بحال کرنے کا ارادہ کیا ۔آپ کی محنت اور علاقے کے لوگوں کی مدد سے خانہ خدا دوبارہ آباد ہوا۔

           یہ بھیرہ کی ایک قدیم مسجد تھی جو شیر شاہ سوری کے عہد میں ھ1540/947ع میں تعمیر ہوئی تھی۔ سکھ دور کی طوائف الملوکی کے باعث 19 صدی کے وسط میں یہ کھنڈرات بن چکی تھی۔ بظاہر خانہ خدا کا کوئی والی وارث نہیں تھا۔ یہاں بھی سکھ جتھے داروں کے گھوڑے،خچر اور جنگی ہتھیار رکھے گئے تھے۔  

         مولانا احمد الدین بگویؒ 1969ع میں فوت ہوئے اور خانقاۃ بھیرہ میں دفن ہوئے۔ بووقت وفات وہ بدستور بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب تھے۔ ان کی خواہش پر ان کے بھتیجے مولانا عبدالعزیز بگویؒ نے بھیرہ کی شیر شاہ سوری جامع مسجد کا نظام سنبھالا اور مدرسہ عربیہ اسلامی ہبھیرہ کے منتظم قرار پائے۔لاہور میں علامہ کے جانشین مولانا غلام محمدؒ بگوی مفتی پنجاب قرار پائے اور وہ بادشاہی مسجد لاہور کی امامت و خطابت کی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔
شیر شاہ سوری جامع مسجد بگویہ بھیرہ 

خاندانی درخت

بگویہ فیملی

مولانا محمد یحیٰ بگویؒ

1878 - 1957
Doctor and philanthropist. Currently serving as the CEO of Mansoorah Hospital, Lahore.

مولانا محمد ذاکر بگویؒ

1876 - 1945
Doctor and philanthropist. Currently serving as the CEO of Mansoorah Hospital, Lahore.

مولانا نصیر الدین بگویؒ

1892 - 1934
Doctor and philanthropist. Currently serving as the CEO of Mansoorah Hospital, Lahore.

مولانا ظہور احمد بگویؒ

1900 - 1945
ڈاکٹر اور انسان دوست۔ اس وقت منصورہ ہسپتال لاہور کے سی ای او کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مولانا افتخار احمد بگویؒ

1919 - 1975
Doctor and philanthropist. Currently serving as the CEO of Mansoorah Hospital, Lahore.

حکیم برکت احمد بگویؒ

1927 - 1999
Doctor and philanthropist. Currently serving as the CEO of Mansoorah Hospital, Lahore.

ڈاکٹر انوار احمد بگوی

Currently serving as the MS of Mansoorah Teaching Hospital, Lahore. Former Additional Secretary Health, Government of Punjab. Founder and Patron of Al-Iftikhar Bugvia Foundation.

مولانا ابرار احمد بگویؒ

Currently serving as the Ameer of Majlis Hizb-ul-Ansar. Administrative Head of Sher Shah Jamia Masjid Bugvia, Bhera. Curator of books.

محمد
ابوبکر بگوی

Former General Manager Pakistan International Airlines. Social worker, and administrative head of Al Iftikhar Bugvia Foundation.

صاحبزادہ لمات احمد بگوی

Community leader, land-owner, social worker, and educationist in Bhera. Team lead of Al Iftikhar Bugvia Foundation.

صاحبزادہ ریاض الحسن بگوی

سابق ٹیچر اسلامیہ ہائی سکول بھیرہ

نوید الرحمان بگوی

آفیسر آف پاکستان کسٹمز سروس CSS بیچ 2005 32 ویں CTP (کامن ٹریننگ پروگرام)۔ فی الحال Bs-19 میں سیکرٹری پروجیکٹس FBR (HQ) اسلام آباد کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

نعیم الرحمان بگوی

1955 - 2012
آفیسر آف پاکستان کسٹمز سروس CSS بیچ 2005 32 ویں CTP (کامن ٹریننگ پروگرام)۔ فی الحال Bs-19 میں سیکرٹری پروجیکٹس FBR (HQ) اسلام آباد کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

شاھد احمد بگوی

آفیسر آف پاکستان کسٹمز سروس CSS بیچ 2005 32 ویں CTP (کامن ٹریننگ پروگرام)۔ فی الحال Bs-19 میں سیکرٹری پروجیکٹس FBR (HQ) اسلام آباد کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

افتخار احمد بگوی کے متعلق شاعری