بھیرہ

تاریخ بہت سے عظیم شہروں کی طرف سے فضل کیا گیا ہے. ان شہروں نے تعلیمی، تاریخی، ثقافتی، سیاسی اور سماجی نقطہ نظر میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اپنی خدمات کی وجہ سے شہرت اور عظمت حاصل کی ہے۔ ان میں سے کچھ شہر وقت کی تباہ کاریوں کا شکار ہو کر اپنی چمک اور رنگت کھو چکے ہیں۔ اگرچہ تاریخی ماضی کو اب بھی ان کے قدیم مقامات اور یادگاروں سے پہچانا جا سکتا ہے۔ ان عظیم شہروں میں پاکستان کے پنجاب میں بھیرہ کا شہر بھی شامل ہے۔

بھیرہ کا قدیم شہر دریائے بہات (جس کا مطلب ہے زرخیزی) کے دائیں کنارے پر واقع تھا، جو اب جہلم ہے۔ لمبے ٹیلوں کی شکل میں اس شہر کی باقیات "بھیررین" احمد آباد گاؤں کے قریب موجود ہیں۔ اپنے عروج پر یہ ایک خوشحال شہر تھا جس کے باشندے مختلف تجارتوں اور مہارتوں میں مہارت رکھتے تھے۔ لفظ بھیرا بنیادی طور پر سنسکرت کے دو الفاظ "بھی" پر مشتمل ہے جس کا مطلب خوف یا دہشت ہے، جبکہ "ہیرا" کا مطلب ہے آزاد ہونا۔ اس طرح بھیرہ کا مطلب ہے وہ شہر جو خوف سے پاک ہو۔ یہ نام اس علاقے کو اس لیے دیا گیا ہو گا کہ اس کے جغرافیائی محل وقوع پر ایک طرف دریائے جہلم اور دوسری طرف پہاڑ ہیں اور دوسری طرف جنگلات یہاں کے باشندوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

جدید بھیرہ ضلع سرگودھا کے میانی اور خوشاب کے درمیان دریائے جہلم کے بائیں کنارے پر واقع ہے۔ یہ لاہور سے 190 کلومیٹر دور اسلام آباد موٹروے M2 کے عین وسط میں ہے۔ یہ پاکستان کا شمالی پنجاب ہے جس کا طول البلد 72.57o اور عرض البلد 32.22o ہے۔

سکندر اعظم 326 قبل مسیح میں اپنی فوج کے ساتھ بھیرہ سے گزرا اور مونگ کے مقام پر دریائے جہلم کو عبور کرنے کے بعد راجہ پورس پر حملہ کیا۔ مشہور چینی سیاح جیسے فا ہوان اور ہوان سانگ بھی تقریباً 644 عیسوی میں اس علاقے سے گزرے۔ بھیرہ کو مسلمانوں کے قدموں تلے ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جب وہ اس وقت کے راجاؤں کے ظلم اور حکمرانی کے خلاف لڑے۔ جن بادشاہوں اور شہنشاہوں نے بھیرہ سے گزر کر اس کی تاریخ پر اپنا نشان چھوڑا وہ ہیں سلطان محمود غزنوی (937-1030ء)، فیروز شاہ تغلق (1389ء)، امیر تیمور (1399ء)، ظہیر الدین بابر (1530ء)، اکبر (1556ء)۔ -1605ء، شیر شاہ سوری (1540-1545ء)۔ مغل شہنشاہ بابر نے اپنی کتاب ’’تزکِ بابری‘‘ میں بھیرہ کے دورے کا ذکر کیا ہے۔ سکھ راج (1790-1849 عیسوی) کے بعد انگریزوں نے بھیرہ پر 1947 عیسوی تک قبضہ کیا۔

شیر شاہ سوری نے 1540ء میں نئے شہر بھیرہ کی بنیاد رکھی۔ یہ شہر ایک حفاظتی دیوار کے ساتھ ایک لمبا شکل میں واقع ہے کیونکہ اس کے چاروں طرف آٹھ دروازے ہیں۔ دروازوں کا نام بڑے شہروں کے ناموں پر رکھا گیا ہے جن میں سے ہر ایک دروازے کا سامنا تھا جیسے لاہوری، ملتانی، کشمیری اور کابلی دروازہ وغیرہ۔

بھیرہ دستکاری اور کاٹیج انڈسٹری میں خنجر، تلواریں، کٹلری، واکنگ اسٹکس، لکڑی کا فرنیچر، کھدی ہوئی دروازے، سوتی کمبل، ریشم کے کپڑے، ہاتھ کے پنکھے، مٹی کے برتنوں اور کھانے کے پکوان جیسی اشیاء کے ساتھ مشہور رہا۔ دینی مدارس اور خانقاہیں بھیرہ کا ایک اہم حصہ ہیں جن کی شراکتیں کئی دہائیوں اور سالوں پر محیط ہیں۔ مشہور صوفی سید محمد میراں شاہ صاحب کا مزار موسم بہار میں توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔ گیلانی کے علاوہ بگوی خاندان نے تعلیم میں پیر کرم شاہ تک حضرت پیر اعظم کی کاوشوں کو سراہا۔ روحانی، سیاسی اور سماجی شعبوں کا ذکر کیا جائے۔ 1947ء کی تقسیم سے قبل بھیرہ کی ترقی میں غیر مسلموں نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔

           اگرآپ لاہور سے M2 پر اسلام آباد کی طرف سفر کرتے ہیں تو نصفمسافت کے بعد بھیرہ انٹر چینج کا بورڈ سڑک کنارے نظر آتا ہے۔ پھر یک بارگی دونوںطرف شاندار عمارتیں،گاڑیوں اور بسوں کی کثرت اور پرونق رنگا رنگ ماحول دکھائی دیتاہے جہاں پاکستان بھر کے موٹرسٹ رک کر سستاتے ہیں۔پاکستان کی پہلی موٹر وے کا  یہ سب سے قدیم اور سب سے مصروف انٹر چینجہے۔یہاں سے بھیرہ شہر اپنی گاڑی پر 10منٹ میں صرف 3.5 کلو میٹر کی  مسافت پر واقع ہے۔

           بھیرہ سنسکرت زبانکا لفظ ہے جس کا مطلب ہے  " امن کاگہوارہ "اس شہر میں جب ہر طرف ہر وقت حملوں کا خطرہ رہتا تھا۔اس شہرمیں امنکی بناء پر صدیوں تک یہ بستی علم و فضل،اور ہنر دستکاری، تہذیب و تمدن میں ممتاز اہمیت کی حامل رہی۔

بھیرہ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے تعلیم اورتہذیب کا سنگم رہا ہے۔امن عامہ نے ایک طرف جہاں تجارت اور صنعت کو فرو غ دی ہےوہاں دوسری طرف تعلیم اور شعور کو بھی فروغ دیا ہے انگریزی دور میں بھیرہ کے سکولایک وسیع علاقے کو سیراب کرتے تھے۔ اسی طرح بھیرہ میں واقع دارالعلوم عزیزیہبرصغیر میں اسلامی اداروں کے قدیم ترین اداروں میں ایک ہے۔ جو ایک طویل عرصے تکدریائے سندھ کے کنارے سے دریائے راوی تک بڑے وسیع علاقے کے مسلمان طالبان علومدینیہ کو سیراب کرتا رہا ہے۔

بھیرہ کے دو تاریخی اور جغرافیائی ادوارہیں۔

پہلے دور میں پرانا بھیرہ دریائے جہلم کی دائیںجانب واقع تھا جہاں اب اسکے آثار مدفون ہے۔ اسے مقامی زبان میں   بھراڑیاں کہتے ہیں۔ اب وہاں کوئی واضح آثار زمین کے اوپر نہیں نظر آتے البتہ زیر زمینپرانی تہذیب کے آثارجیسے برتن سکے اینٹیں وغیرپائے جاتے ہیں۔

تیز بارشوں میں جو کبھیکبھی زمین کی سطح پر مل جاتے ہیں۔پرانا بھیرہ شمال کی جانب سے آنے والے اکثر حملہ آوروںکی زد میں آتا رہا یہاں تک کہ افغانیوں نے اس خوشحال شہر کا تیا پانچہ کر دیا۔مشہورعربی ڈکشنری  ً المنجد ً  میں بھیرہ کو شمالی حملہ آوروں کاایک راستہ بتایاہے۔افغانیوں نے  شہریوں کو قتل کردیا۔ان کامال و اسباب لوٹ لیا اور عمارتوں کو آگ لگا کر زمین بوس کردیا۔

ع   دوسرا دور  شروع ہواجب امن اور سکون کی تلاش میں یہ شہر دریائے جہلم کی بائیں جانب منتقل ہوا۔قبل مسیح تاریخ کے حوالے1540

سے ایک قدیم حکمران راجہ سورج نے شہر پر حکمرانی کی۔قدیم زمانے میں کئی چینی سیاح بدھ مذہب کی تحریروں کی تلاش میں ہندوستان آئے۔ان میں چند بھیرہ کے راستے شمال کی جانب ٹیکسلا اور سوات کی وادیوں میں گئے۔

جن میں فاہیا ن 399ق م  چندر گپت کے عہد میں سانگ 630ق م شامل ہیں۔

انہوں نے اپنے سفری تذکرو ں میں بھیرہ کا نام تحریر کیا ہے۔

عرب سیاح البیرونی،سلطان محمود غزنوی کے دور میں ہندوستان میں وار د ہواپھر وہ بھیرہ میں بھی آیا اور مقامی اہل علم سے تبادلہ خیالات کیا۔وہ فلک پیمامنجم اور ستارہ شناس تھا۔روایت ہے کہ اس نے جن چند شہروں کا عرض بلد اوروہاں قطبی ستارے (North star)کی بلند ی جانچنے کی کوشش کی ان قدیم شہروں میں بھیرہ کا نام شامل ہے۔

راجہ سورج کے بعد شنکل، کیدار، یونان کا سکندر اعظم (326 ق )

محمود غزنوی (1030ع)

محمد غوری اور چنگیز خان کے لشکر (1221ع) خاندان غلاماں کا سلطان شمس الدین التمش(1235ع)   محمد بن تغلق (1326ع)، ازبکستان کاامیرتیمور(1398ع)،افغانستان سے شیر شاہ سوری (1545ع)

فرغانہ کا ظہیر الدین بابر (1530ع)  

محمد نصیر الدین ہمایوں (1556ع)،جلال الدین  اکبر اعظم(1556ع)،جہانگیر (1605ع) شاہ ہجان (1665ع)،   اور  اورنگ زیب عالمگیر (1707ع)

کے بعد سکھ دورمیں مہاراجہ رنجیت سنگھ (1839ع)

اس خطہ پر حکمران رہے۔

ایک روایت میں آتاہے کہ 326 قبل مسیح میں علاقہ بھیرہ کے  راجا پورس کے ساتھ لڑائی میں سکندر اعظم کا گھوڑا بیوس فیلس یا ایک دوسری روایت کے مطابق بوقا  فارس مار ا گیا۔ وہ گھوڑا سکندر اعظم کو بہت پیارا تھا۔ اس نے وہا ں پر اس گھوڑے کے ڈھانچے کو دفن کیا۔بوقا کا نام بگڑتے بگڑتے بگا بن گیاجو بھڑاریوں سے تھوڑی مسافت پر جنوب کی جانب دریاکے کنارے واقع ہے،   واللہ اعلم۔

مغلیہ خاندان کا بانی بابر جب ہندوستان میں وارد ہوا اورکلر کہار میں پہنچاتواس نے بھیرہ کے قریب دریا ئے جہلم کو عبور کیا۔ اس نے کئی رو ز بھیرہ میں قیام کیا۔یہ ایک بہت سرسبز شاداب علاقہ تھا،باغات کی کثرت تھی شہر کی آبادی تعلیم سے آراستہ اور تہذیب یافتہ تھی۔سر سبزی اور شادابی دیکھ کر بابرنے اس شہر کو" بچہ کشمیر" قرار دیا۔  بابر کے قیام کے حالات اور مشاہدات کی تفصیل  "تزک بابری" میں کئی صفحات پر موجود ہے۔

نیا بھیرہ جو 1540ع  میں آباد ہوا۔نئی جگہ پر اس کی ابتدائی آبادی ایک ٹیلے کے قریب موجود تھی۔ وہاں کسی ایک فقیر کا مزار یا دسمادھی موجود تھی۔ ارد گرد مزید لوگ آباد ہوئے۔اسی آبادی کے گرد شاہی فرمان کے بعد موجودہ بھیرہ وجود میں آیا۔اسی دوران میں جب سوری دور میں ہر طرف تعمیرات کا دور دورہ تھاروایت ہے کہ کسی مقامی سردار نے سوری فن تعمیر کے مطابق ایک ایسی مسجد تعمیر کی جس کے 3مرکزی گنبد تھے۔ مورخ کے مطابق سامنے ایک وسیع صحن بھی رکھا گیا تھا۔شہر کی  فصیل کے باہر واقع اہم چنیوٹی دروازہ کے قریب جامع مسجد بھیرہ تعمیر کی گئی۔حیران کن بات یہ ہے کہ شیر شاہ سوری مسجد کے آثار میں کہیں سنگ مرمرسنگ سرخ وسیاہ یادہ نقش و نگار کا نشان نہیں ملتے اور نہ کہیں شاہی تعمیرات کے آثار پائے جاتے ہیں جو بادشاہو ں کی تعمیرکردہ عمارتوں کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے۔

ع1857 تک بھیرہ دہلی کی مغل حکومت کا حصہ تھالیکن حقیقت میں خکمرانی علاقے کے مقامی جنگ جو سرداروں کی تھی۔ خانہ جنگیوں کے بعد جب رنجیت سنگھ کامیاب ہوکر مہاراجہ پنجاب بنا تو 1849تک بھیرہ سکھ دور میں رہا۔مکاری اور خونریزی کے ذریعے انگریزی قبضہ کے بعد 1947ع تک یہاں انگریز کی عمل داری رہی۔جس کاقائم کردہ آج بھی پولیس،ریوینو اور دوسرے شعبوں کی شکل میں ابھی تک موجود ہیں۔

انگریزوں نے استعماری مقاصد کے اور غاصبانہ اقتدار کے لیے درج ذیل اقدام کیے۔

۔1-میونسپل کمیٹی کا قیام1867ع

2۔2-پولیس اسٹیشن کا قیام 1870ع  (اس سے پہلے کمپنی بہادر کا جنگل لاء تھا

3۔3-ریلوے اسٹیشن کا قیام 1888ع   (تصویر)

4۔4-گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ کی بنیاد 1888ع

بھیرہ  400ق  اپنے قدیم آثار،پرانی تاریخ،اوربیرونی حملہ آوورں کے لیے  جغرافیائی محل وقوع کے باعث موہنجوداڑو(3000ق) اورہڑپا (1300ق م)کے بعد ایک ممتاز اور تاریخی اہمیت کا حامل رہا ہے۔بھیرہ کی تہذیب اور رہتک نے یہاں ایک بہت اعلیٰ گنگا جمنی کلچر کو رواج دیا۔

جس میں مسلمان،ہندوؤں اور سکھ مل جل کر رہتے تھے۔جہاں گردوارے اور بھیر ہ آبادی کے لیے مسجدیں،قبرستان،شمشان گھاٹ،مزار،اورسمادھیاں موجود ہیں۔

گزیٹریرشاہ پور کے مطابق 1905ع میں شہر میں 2 ہائی سکول تھے۔ایک اینگلو ورنیکولر سکول جو محکمہ تعلیم اور میونسپل کمیٹی چلاتے تھے۔دوسراکرپا رام اینگلو سنسکرت ہائی سکول جو ایک مخیر  ہندو فیملی چلاتی تھی۔دونوں سکولوں میں سب مذاہب کے بچے داخل ہوتے تھے۔ویسے بھی شہر کی عمومی فضا میں روادار ی،برداشت اور حسن اخلاق کا چلن تھا۔

Notification  کی فصیل شہر بھیرہ کی   Walled City of Lahore Authority Government of Punjab

کے تحت، شیر شاہ سور ی جامع مسجد اور دیگر چند عمارات کو اہم تہذیبی اثاثہ قرار دیا ہے۔ بھیرہ میں واقع شیر شاہ سوری جامع مسجد اٹھارہویں صدی سے بگوی خاندانوں کے علماء کی ذمہ داری رہی ہے اس کا رقبہ تقریباً 45کنال پر واقع ہے۔ جس میں جامع مسجد کا داخلی اور بیرونی حصہ، 3 گنبد اور 2مینارے شامل ہیں۔دینی علوم کے لیے طلبہ کے لیے دارالمطالعہ،دارا الحدیث، دارالقرآن اور دارالقیامیہ ہے جانبِ جنوب مسجدکے صحن کے ساتھ قدیم خانقاہ بگویہ بھی ساتھ واقع ہیں۔

جلال الدین اکبر بادشاہ کے عہد سے اورنگ زیب عالمگیر کے ابتدائی زمانے تک بھیرہ میں امن اور خوشحالی رہی۔علاقائی بغاوتیں اورمقامی خانہ جنگیاں کم تھیں۔

اکبر کے طویل زمانہ میں ہندو مسلم رواداری او ر بھائی چارے کی فضا پروان چڑھی۔بر صغیر میں عام  زندگی ٹھراؤ اور امن سے گزرتی رہی۔اکبر کے عہد کی یادگار تاریخی تصنیف  ً  آئین اکبری  ً  میں بھیرہ کو صوبائی سطح کی عملداری کا فرض سونپا گیا جہاں سکے ڈھالنے کے لیے کوئی پلانٹ بھی نصب کیا گیا تھا۔

اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں محلہ پراچگان اور محلہ لوہارا موری کے نزدیک گلیوں کے اندر واقع مسجد حفظانی تعمیر کی گئی۔اس کے نیچے ایک تہ خانہ اور بوقت ایمر جنسی شہر سے باہر نکلنے کا زیر زمین راستہ بھی بنا یاگیا تھا۔مسجد حفظانی کے علماء کو اورنگ زیب عالمگیر کی جانب سے خلعت اور جاگیرکا پروانہ بھی جار ی کیا گیاتھا۔

تحت پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے تخت دہلی کے فقیر عزیز الدین(1780ع) کا ذکر ناگزیر ہے۔فقیر، راجہ کے مدیر المہام (چیف سیکرٹری) اور وزیر اعظم بھی تھے۔دربار کی زبان فارسی تھی۔ راجہ خود ان پڑھ تھا مگر تھا بہت سیانا، راجہ کی ساری خط و کتابت بلکہ سفارت فقیر عزیز الدین کرتے تھے۔ راجہ نے لاہوراورپنجاب کے علماء اور دینی مدارس اور مساجد کی داد رسی او ر سرپرستی کرنے میں حصہ ادا کیا ہے۔بھیرہ سے دونوں بگوی برادران (مولانا غلام محی الدین بگوی ؒاور علامہ احمد الدین بگویؒ) کی لاہور میں درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کی خدمات سرانجام دینے کا سہرا فقیر عزیز الدین مر حوم کو جاتا ہے۔

انگریز نے پنجاب پرقبضے کے فوراََ بعد ایسے منصوبے شروع کیے جن کا بنیادی مقصد مقامی آبادی سے اپنے وفادار اور مفید ملازم تلاشنا اور تیار کرنا،دفاعی اعتبار سے دور افتادہ جگہوں پر فوج اور اسلحہ کی فوری نقل و حمل،عوام کو پورا غلام بنانے اور غلام رکھنے کے لیے انگریزی زبان اور پولیس اور بیوروکریسی کا نظام،چھاؤنیوں کی تعمیر جہاں گورے افسروں اور کمانڈروں کے لیے بہت آرام دہ اور جدید سہولیات تعمیر کرناتھا۔عدم التفات اور زبان کی تبدیلی سے عام شہری آبادی کو تعلیم،صحت،سڑکات،انڈسٹری،اگریکلچرمیں پس ماندہ رکھنا مقصودچنانچہ ان اقدامات سے مقامی آبادی کو کم اور سب سے ذیادہ نفع انگریز کو اور اس کی مقامی ذریت کو حاصل ہوا۔اس سلسلے میں بھیرہ میں پو لیس اسٹیشن، سرکاری تعلیمی سکول،  ریلوے اسٹیشن،تار گھر، ڈاک خانہ،میونسپل کمیٹی اور چرچ وغیرہ کی تعمیر ہوئی۔ تمام دوآبہ(چناب اور جہلم کے درمیان)بشمول موجودہ ضلع سرگودھا،خوشاب،میانوالی،جھنگ،اور گجرات تمام علاقے کو ضلع شاہ پور کا نام دیا گیا۔یہ نیا جغرافیائی سیٹ اپ فوجی اور حکمرانی ضروریات کے تحت بدلتا رہا۔ایک مدت تک بھیرہ ضلع شاہ پور کی تحصیل شمار ہوتا رہا۔اسی طرح میانوالی کی حد سے ملحق ضلع کوہاٹ /بنوں کے کچھ حصے بھی وسیع ضلع شاہ پور کے ساتھ رہے۔

1986-90ع  میں Mr J. William ضلع کا پہلا ڈپٹی کمشنر تھا۔اور آخری1931-33ع  میں Mr IE James اس کے بعد دو مزید انگریز ڈی سی آئے۔لیکن 1947ع  تک برصغیر کے ہندو مسلمان ICSضلع ڈی سی رہے۔یوں انگریز قریبا ً ایک سو سال میں اپنے حقیقی جانشین پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا جس کے اثرات پاکستان کی سول ملٹری شعبوں پر آج بھی نمایا ں ہے۔

مشہور انگریز منتظم، منصوبہ ساز اور شاطر میکالے نے نئے حکمرانوں کو یقین دلایا کہ بر صغیر کے رہنے والے کالے غلام عقل و دانش اورعام سوجھ بوجھ میں یورپ کے گوروں کے برابر نہیں ہیں۔ہندوستانیوں کی ذہنی سطح ابھی حیوانی ہے اس لیے ان کواتنی جلدی عصری تعلیم، مشینی ہنر،بنیادی حقوق،سیاسی شعور اور آزاد ی کا حق نہیں دینا چاہیے۔

اسی غاصبانہ فکر کے تحت انگریز کے ایماء اور اجازت سے پہلے آل انڈیا کانگریس پارٹی قائم کی گئی اور پھر 1906ع  میں آل انڈیا مسلم لیگ۔ہندو کئی سو سال سے مسلمانوں کا غلام اور ماتحت رہ چکا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ انگریز کی ملی بھگت سے کہیں مسلمان دوبارہ اقتدار حاصل نہ کرلیں۔اسی خوف نے انگریز کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا کہ ان کے اندر آزادی،حکمرانی اور مساوات کے شعلہ یزدانی فروزاں نہ ہو۔

احساس برتری کے باعث خودمسلمان اپنی پر شکوہ حکومت چھن جانے کے بڑی دیر بعد عصری تعلیم،ہنر و دستکاری اور سرکاری ملازمتو ں کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہ کریڈٹ بلاشبہ سر سید احمد خان مرحوم کو جاتا ہے جنہوں نے مسلمانوں کی محرمیوں کی بات کی اور اس طرح ایک علیحدہ قومیت کی بنیاد رکھی۔

انگریز نے مقامی آبادی کو Engage  رکھنے کے لیے بہت محدود اور رسمی سی لوکل سیف گورنمنٹ کو تصور دیا۔اس کے تحت بھیرہ میں 1882ع    میں میونسپل کمیٹی تشکیل دی گئی۔انگریز مقصود جمہوری حق دینا نہیں تھا بلکہ اپنے تخت کی حفاظت،حواری اور پجاری طبقوں کی سر پرستی اور حوصلہ افزائی تھی۔تب کہیں کوئی ووٹ تھا اور نہ کوئی سیاسی آزادی،انگریز سرکار کے نامزد کردہ درباری حواری،کرسی نشین،ریٹائرڈ ملازم اور جاگیر داران کے کے ممبر،چئیر مین اور وائس چیئر مین نامزد ہوا کرتے تھے۔کئی سال کے بعد ووٹ کا اجراء ہو ا۔اس میں بھی ووٹ دینے کے حقدار سرکار سے وابستہ اور وفادار لوگ ہوئے تھے۔عام آدمی،مذہبی یا عصری تعلیم یافتہ یا دیگر شہریوں کا کوئی حصہ نہ ہوتا تھا۔

بھیرہ دیوار والے شہر کا نقشہ

بھیرہ ٹورسٹ گائیڈ کا نقشہ