بھیرہ کے میلے

چیتر دا/ بیساکھی دامیلہ اصل میں یہ کسان خصوصاً سکھوں کا پیام بہار ہوتا ہے۔ ا س میلے کا کچھ حصہ دریائے جہلم کے کنارے،کچھ شہر کے بازاروں میں اور زیادہ حصہ دربار میراں صاحب قادر ی کی زیارت، چڑھاوے او ر فصداً خون کی نذرپرمشتمل ہوتا ہے۔ (اب تو حجامہ کا نام آتا ہے صدیوں سے مزار کے باہرگلی میں مرد/ عورتیں / مٹی کی ایک صحنک سامنے رکھ لیتی ہیں۔جوڑوں اور اعصابی دردوں کے پرانے مریضوں قدیم طبی مشورے کی تحت آتے اور اپنی ٹانگ صحنک کے اندر یا ا س کے اندر اینٹ پر رکھ دیتے ہیں فصدساز ٹخنے پر کپڑا باندھ کے ورید نمایا ں کرتا ہے۔بازوں کو بھی فصد استعمال کیا جاتاہے۔پھر کسی نمایا ں ورید(Vein) میں نہا رن کی نوک سے باریک سا کٹ لگاتا ہے تو پتلے خون کی کالی یا سرخ لکیر بہ نکلتی ہے۔کیفیت اور بیماری کی جگہ کے مطابق پنڈلی پر ہلکے ہلکے پچھے سے خون بھی نکالا جاتا ہے۔ٹک لگانے سے خون صحنک یا کنالی میں گرتا ہے، خاتون یا مرد جرح اپنے پاس دھری سواہ (راکھ) کی چٹکی زخم پر رکھ کر دباتا اوراو پرسے کپڑے کی ایک دھجی بطور (ASD) پٹی باند ھ دیتا ہے۔جو بھی طریقہ علاج تھا،مریض  اس سے مطمئن ہو جاتا اور چند سکے جراح کی نذر کر دیتا

اس فصد(Bleeding)   کے دوران کبھی کسی Haemorage (جریان خون) سے Shockکی  خبر نہیں آتی یا کسی کو1122 کو کال کرنا پڑے۔

شہر میں بعض بزرگوں جیسے حضرت پیر کرم شاہ  ؒ،  اور ان کے بزرگوں،  گیلانی خاندان،  بگویہ خاندان کے علاوہ دیگر کئی بزرگوں کے عرس مقرر ہ تاریخوں پر ان کے مزارات پر منائے جاتے ہیں۔